از قلم:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الحمد للہ رب العالمین ,و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد
دین اسلام فطری دین ہے جس کے بیشتر احکام فطری عوامل کے ساتھ معلق ہیں مثلاً حج اور عمر ہ کرنا، روزے رکھنا،زکاۃ ادا کرنا وغیرہ اللہ کی فطری نشانی (چاند)کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اسی بات کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔جیسا کہ رب العالمین کا فرمان عظیم ہے۔{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَواقِيتُ لِلنّاسِ والْحَجِّ} (البقرۃ:۱۸۹)(ترجمہ:لوگ آپ سے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ یہ لوگوں (عبادت)کے وقتوں اور حج کے موسم کے لئے ہے)
یہ بات تو قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ مہینوں کی تعداد بارہ ہے,ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں,اللہ تعالی نے فرمایا:( إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ)(سورہ ٔ التوبہ:۳۶)(ترجمہ: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں, یہی درست دین ہے،تم ان مہینوں میں اپنی جانوں ظلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وه تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے)
نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا🙁 إنَّ الزَّمانَ قد استدار كهيئةِ يومِ خلق اللهُ السَّماواتِ والأرضَ السَّنةُ اثنا عشرَ شهرًا أربعةٌ منها حرُمٌ ثلاثٌ متوالياتٌ ذو القِعدةِ وذو الحَجَّةِ والمُحرَّمُ ورجبُ مُضرَ الَّذي بين جُمادى وشعبانَ)(بخاری حدیث نمبر:۴۴۰۶,مسلم حدیث نمبر:۱۶۷۹)(ترجمہ: زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے“)
لیکن ہم جب اپنے گردو و نواح کا مطالعہ کرتے ہیں اور وہاں پیش آنے والے امور کا مشاہدہ کرتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے کہ بعض نام نہاد ملاؤں نے اسلام کے چشم صافی کو بدعات و خرافات ,باطل رسم و رواج اور غلط امور کے ذریعہ اس چشمہ ٔ صافی کو کس قدر گدلا کر دیا ہے۔ کوئی اسلامی مہینہ ایسا نہیں جس میں خود ساختہ عبادات، بے ڈھنگے معاملات اور بدعات رائج نہ ہوں مگر ماہ رجب تو وہ مظلوم مہینہ ہے کہ جس میں بدعات کی کثرت ظلمات بعضہا فوق بعض کا منظر پیش کرتی ہے؛ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس ماہ کا احترام کیا جاتا ,اس کی قدسیت کا خیال رکھا جاتا,اس کے ادب کا پاس و خیال کیا جاتا,اس میں نو ایجاد بدعات سے ضروری طور پر اجتناب کیا جاتا ؛مگر اس کے بر عکس اس میں وہ اعمال انجام دئے جاتے ہیں,جن کا شریعت میں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ۔
ماہ رجب کی چند معروف ومشہور بدعات:
یوں تو بدعات کی تعداد روز افزوں ہے,دنوں کی گنتی کے حساب سے بدعات انجام دی جارہی ہیں,ساتھ ہی روز بہ روز بدعات کی تعداد نئے انداز سے بڑھ رہی ہے,اور فیشن کی طرح اس میں اضافہ کرنا بھی لوگ (یا بعض لوگ)ضروری سمجھتے ہیں؛ بنا بریں ذیل میں ماہ ِ رجب کے متعلق چند بدعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے
۱۔ پہلے رجب کو ہزاری نماز پڑھنا ہزاری نماز کو ہزاری نماز کیوں کہا جاتا ہے
اس نماز کا طریقہ یہ ہے کہ اس میں 100 رکعت اور ہر رکعت میں 10 مرتبہ قل ہو اللہ احد. اس طرح سورہ اخلاص 100 رکعت میں 1000 دفعہ پڑھا جاتا ہے اس لئے اس نماز کو ایک ہزاری(۱۰۰۰۰)ہزاری نماز کہا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی نماز نبی ٔ کریمﷺ سے ثابت ہے,رسول اللہ ﷺکے صحابہ ٔ کرام ۔رضی اللہ عنہم۔نے ایسی نماز پڑھی ہے ؟کیا اس کا ثبوت شریعت میں کہیں موجود ہے ؟
اگر نہیں اور یقینا نہیں تو یہ سراسر بدعت ہے اور دین میں ایجاد ِ نو ہے,جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے
۲۔ پندرہویں رجب کو ام داؤد کی نماز پڑھنا ۔
یہ ام داؤد کون ہیں اور یہ نماز کیوں ان کے ساتھ منسوب ہوئی؟جب خاکسار نے اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو درج ذیل امور سامنے آئے,ملاحظہ فرمائیں :۔
(الف) امداؤد عبداللہ بن ابراہیم کی بیٹی اور حسن مُثَنّیٰ کی زوجہ ہیں,اپنے بیٹے داؤد کی نسبت سے “ام داؤد” کے نام سے مشہور ہوئیں؛ آپ جناب جعفر صادق ۔رحمہ اللہ۔کی مادر رضاعی بھی ہیں
(ب) امداؤد کے بیٹے داؤد کو عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کے حکم پر گرفتار کر کے عراق لے جایا گیا جس کے بعد ایک مدت تک ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ امداؤد اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے کافی دعائیں مانگا کرتی تھیں, اور مختلف لوگوں سے اس حوالے سے مدد لیا کرتی تھیں,لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایک دن ام داؤد جناب جعفر ِ صادق ۔رحمہ اللہ۔ کی خدمت میں پہنچیں، اس موقع پر جناب جعرف صادق نے ام داؤد سے ان کے بیٹے کے متعلق سوال کیا۔ امداؤدنے مذکورہ واقعے کو امام کی خدمت میں بیان کیا۔
اور جعفر صادق نے ام داؤد کو رجب کے ایام بیض میں “عمل ام داؤد” بجا لانے کا حکم دیا ہے اور وہ اسے بجا لاتی رہیں(عمل ام داؤد کی تفصیل یہ ہے: سب سے پہلے ماہ رجب کے ایام البیض یعنی 13، 14 اور 15 تاریخ کو روزہ رکھا جائے؛15ویں تاریخ کو غسل کرے اس کے بعد ایک ایسی جگہ جہاں بیٹھ کر نماز ظہر و عصر کو خضوع اور خشوع کے ساتھ بجا لائے جہاں نہ کوئی چیز انسان کی توجہ ہٹا سکے اور نہ کوئی شخص اس سے گفتگو کر سکے؛نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر درج ذیل سورتوں کی تلاوت کرے: 100 مرتبہ سورہ حمد؛100 مرتبہ سورہ اخلاص؛10 مرتبہ آیۃ الکرسی؛سورہ انعام، سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ لقمان، سورہ یس، سورہ صافات، سورہ سجدہ، سورہ شوری ، سورہ دخان، سورہ فتح، سورہ واقعہ، سورہ ملک، سورہ قلم، سورہ انشقاق اور اس کے بعد قرآن کے آخر تک تمام سورتوں کی ایک ایک بار تلاوت کرے؛اور آخر میں دعائے استفتاح یا دعائے ام داؤد پڑھی جائے)
(ج) امداؤد یہ بھی کہتی ہیں، اس عمل کے چند دنوں بعد ان کا بیٹا داؤد گھر لوٹ آیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ 15 رجب کے دن ہی رہا ہو گئے تھے(یہ ساری تفصیلات ویکی شیعہ سے لی گئی ہیں)
یہ تفصیلات اس لئے ذکر کی گئیں تاکہ آپ یہ اندازہ کر سکیں کہ ماہ ِ رجب کی ۱۵ویں تاریخ کو کس کی یاد میں ام داؤد کی نماز پڑھی جاتی ہے (یعنی اس کی بدعت ہونے میں شمہ برابر بھی شک نہیں کیا جا سکتا ہے)
۳۔ رجب کے جمعہ کی پہلی رات بارہویں نماز پڑھنا .
۴۔ صلاۃ الرغائب پڑھنا
یہ نماز رجب کی پہلی جمعرات کو مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھی جاتی ہے اس میں بارہ رکعتیں ہوتی ہیں، ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ فاتحہ اور سورۃ القدر وسورۃ الاخلاص بالترتیب تین دفعہ پڑھی جاتی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ بارہ رکعات دو دو رکعت کر کے ادا کی جاتی ہیں۔ نماز سے فارغ ہو کر ساٹھ دفعہ یہ درود پڑھا جاتاہے ؛ اللھم صل علی محمد النبی الامی وعلی آلہ۔۔۔ پھر سجدہ کی حالت میں ساٹھ دفعہ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح کہا جاتاہے، سجدہ کے بعد یہ دعا ساٹھ دفعہ پڑھی جاتی ہے :رب اغفرلی وارحم وتجاوز عما تعلم انک انت العزیز الاعظم۔ پھر دوسرے سجدہ میں بھی اسی طرح کیا جاتاہے
اس جعلی اور من گھڑت نماز کے متعلق عجیب قسم کے فلسفے بیان کئے جاتے ہیں ؛مثلا:
(۱) اس نماز کے بعد انسان کے تمام گناہ (چاہے وہ سمندر کی جھاگ اور درختوں کے پتوں جتنے ہوں)معاف ہو جاتے ہیں۔(واہ کیا بات ہے)
(۲)اس نماز کو ادا کرنے والا قیامت کے دن ستررشتہ داروں کے لیے شفاعت کر سکے گا۔ صاحب قبر کہے گا تم کون ہو اللہ کی قسم میں نے تم سے زیادہ حسین خوش گفتار اور خوشبودار نہیں دیکھا ہے تو یہ ثواب اس کو کہے گا کہ میں تو اس نماز کا ثواب ہوں جو کہ تو نے رجب کی فلاں رات پڑھی تھی میں آج تیرا حق لوں گا، قبر میں تیری تنہائی دور کروں گا، تمہاری وحشت کو ختم کر دوں گا، قیامت کے دن میں تمہارے سر پر سایہ بن جاؤں گااور تم کبھی بھی خیر سے محروم نہیں ہو گے۔(واہ کیا بات ہے؟پھر عذاب قبر کیوں کر ہوگا؟)
مذکورہ امور پر سنجیدگی کے ساتھ غور فرمالیجئے اس نماز کی حقیقت ِ حال سمجھ میں آجائے گی ,بھلا ایسی بھی کوئی نماز ہوتی ہے
اگر اس کی کچھ حقیقت ہوتی تو نبی ٔ کریمﷺ ,صحابہ ٔ کرام اور تابعین عظام سے اس نماز کے متعلق کچھ بھی کیوں ثابت نہیں ہے ؟
اسی لیے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس نماز کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھا؛آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں: أما صلاۃالرغائب فلا أصل لھا بل ھی محدثۃ فلا تستحب لا جماعۃ ولا فرادی۔((مجموع الفتاویٰ :۲۳/۱۳۴) اس نماز کی شریعت اسلامیہ میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ تو بدعت ہے جس کو نہ تو باجماعت ادا کرنا درست ہے اور نہ ہی منفرد۔
امام نووی رحمہ اللہ سے جب صلاۃ الرغائب کے بارے میں پوچھا گیا تو آں رحمہ اللہ نے کچھ یوں جواب دیا : یہ نماز نہ تو رسول اکرم ﷺ ، صحابہ کرام اور نہ ہی ائمہ اربعہ میں سے کسی نے پڑھی ہے اور نہ ہی اس کی (فضیلت +طریقہ )کی طرف اشارہ کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے بسند صحیح اس کے بارے میں کچھ ثابت نہیں ہے بلکہ یہ تو بعد کے زمانے میں ایجاد کی گئی ہے۔ (البدع الحولیۃ، ص:۴۵۔۴۷)
اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : وکذلک احادیث صلاۃ الرغائب لیلۃ اول جمعۃ من رجب کلہا کذب مختلق علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ۔ (المنار المنیف فی الصحیح والضعیف، ص:۹۵، حدیث:۱۶۷)
’’رجب کے پہلے جمعہ میں اد ا کی جانے والی نماز (یعنی صلاۃ الرغائب) کے بارے میں مذکور احادیث رسول اللہ ﷺ پر بہتان ہے۔‘‘(یعنی یہ نماز خانہ ساز ,من گھڑت اور جعلی ہے,شریعت ّ اسلامیہ کا اس سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے۔
اس نماز کے متعلق بیان کی جانے والی تمام احادیث ضعیف ہیں یا موضوع ,جن سے اس نماز کی مشروعیت ثابت نہیں ہوسکتی ہے,اور جب مشروع نہیں تو بدعت ٹھہری
۷۔ ماہ رجب میں بالخصوص روزے رکھنا:
جیساکہ لوگوں میں مشہور ہے کہ رجب کے پہلے دن کا روزہ تین سال کا کفارہ ہے اور دوسرے دن کا روزہ دوسالوں کا اور تیسرے دن کا ایک سال کا کفارہ ہے، پھر ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے۔ اسی طرح ستائیس کولکھی اور ہزاری روزے رکھ کر ہزاروں لاکھوں ثواب کی امید کی جاتی ہے جبکہ یہ روزے رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہیں اور جو عمل رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں وہ باطل ومردود ہے
اس بدعت کو سنت کا رنگ دینے,اسے ثابت کرنے,اور اسے صحیح قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے,حتی سخت ضعیف اور موضوع روایات کا سہارا تک لینے میں کوئی دریغ اور گریز نہیں کیا جاتاہے اس لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس قسم کے بدعتی روزوں کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ماہ رجب کے روزوں کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے نہ سلف صالحین میں سے کسی نے خصوصی طور پر ان روزوں کا اہتمام کیا۔ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس مہینہ میں روزے رکھنے والوں کو تعزیراً مارتے تھے اور فرماتے : اس (ماہ رجب) کو ماہ رمضان کے مثل نہ بناؤ۔ (دیکھئے علامہ البانی کی :ارواء الغلیل ۴/۱۱۳)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے شاگرد ِ رشید علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم یصم الثلاثۃ الا شہر سردا رجب شعبان ورمضان کما یفعلہ بعض الناس ولا صام فی رجب قط (زاد المعاد فی ھدی خیر العباد ۲/۶۴)(ترجمہ:رسول اللہﷺنے ماہ رجب و شعبان و رمضان کے روزے کبھی نہیں رکھے جیسا کہ بعض لوگ کیا کرتے ہیں اور نہ ہی آپ ﷺنے رجب کے روزے کبھی رکھے)
دار العلوم دیوبند کے ایک فتوی میں بھی اسے بدعت قرار دیا گیا ہے,پورا استفتاء ملاحظہ فرمائیں 🙁 کیا فرما تے ہیں علمائے دین ہزاری روزہ کے بارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں؟)
اب جواب بھی ملاحظہ فرما لیں :
( جواب نمبر: 161202
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:926-791/N=8/1439
۲۷/ ویں رجب کے روزے کا ہزار روزوں کے برابر ہونا کسی صحیح دلیل سے ثابت نہیں اور اس سلسلہ میں جو بعض روایات پیش کی جاتی ہیں، وہ یا تو موضوع ہیں یاحد درجہ ضعیف ہیں؛ اس لیے ۲۷/ رجب کے روزے کو ہزاری روزہ جان کر روزہ رکھنا درست نہیں۔ اور بعض لوگ جو اس روزے کو واجب وضروری سمجھتے ہیں، یہ بالکل غلط اور بدعت ہے، اس دن روزے سے احتراز چاہیے؛ البتہ اگرکوئی شخص ہرپیر کو روز رکھتا ہے اور ۲۷/ رجب کو پیر ہو تو وہ حسب معمول نفلی روزہ رکھ سکتا ہے، اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں؛لیکن لوگوں پر اپنے روزے کااظہار نہ کرے ورنہ کسی شخص کو یہ خیال آسکتا ہے کہ یہ ہزاری روزہ رکھ رہا ہے(فتاوی رشیدیہ، ص: ۴۵۴، ۴۵۵، مطبوعہ: گلستاں کتاب گھر، دیوبند، فتاوی محمودیہ ، ۳:۲۸۰، ۲۸۱، جواب سوال: ۹۴۸، مطبوعہ: ادارہ صدیق ڈابھیل)۔)
(پورا استفتاء و جواب اس لنک میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں: https://darulifta-deoband.com/home/ur/Innovations–Customs/161202)
لگے ہاتھوں مفتی محمود حسن گنگوہی ۔رحمہ اللہ۔کا ایک فتوی بھی ملاحظہ فرما لیں ,فرماتے ہیں:
”اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں ،نہ کبھی حضور ﷺ نے کیا ، نہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحہم اللہ نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمہ اللہ نے غنیتہ المستملی، ص:411 میں، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے الجر الر ائق شرح کنز الد قائق ،ج:2، ص: 56، میں، علا مہ طحطا وی نے مراقی الفلاح ،ص:22 میں، اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں ان کو ردکیا ہے‘‘۔(فتاویٰ محمودیہ:3/284،ادارہ الفاروق کراچی)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:( وأما صوم رجب بخصوصه فأحاديثه كلها ضعيفة ؛ بل موضوعة ، لا يعتمد أهل العلم على شيء منها ، وليست من الضعيف الذي يروى في الفضائل ، بل عامتها من الموضوعات المكذوبات)(مجموع فتاوی :۲؍۴۷۸)(رجب کے روزوں کے متعلق جتنی بھی روایات ہیں ,ساری ضعیف ہیں ؛بلکہ موضوع ہیں,کسی ایک روایت پر اہل علم کا بھروسہ نہیں ہے ,جو روایتیں بیان کی جاتی ہیںزضعیف کے قبیل سے بھی نہیں ہیں,بلکہ تقریبا ساری کی ساری روایات موضوع ہیں)
علامہ ابن القیم ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( كل حديث في ذكر صيام رجب وصلاة بعض الليالي فيه فهو كذب مفترى)(المنار المنیف:۹۶)(ہر وہ حدیث جس میں رجب کے روزے اور رجب کی بعض راتوں میں نماز پڑھنے کا تذکرہ ہے,وہ جھوٹی اور افتراء پرداز ہے )
ماہ ِ رجب میں روزہ رکھنے کے تعلق سے بقول حافظ ابن حجر۔رحمہ اللہ۔گیارہ احادیث ضعیف اور اکیس حدیثیں مروی ہیں ؛حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:( لم يرد في فضل شهر رجب ولا في صيامه ولا في صيام شيء منه معين ولا في قيام ليلة مخصوصة فيه حديث يصلح للحجة)(تبیین العجب ص ۱۱ )(ماہ ِ رجب کی فضیلت ,اس میں روزے رکھے یا کسی متعین رات میں قیام کرنے کے متعلق کوئی بھی حدیث قابل حجت نہیں ہے)
۵۔معاجن رجب،، یعنی بعض لوگوں کا ماہ رجب کی ۲۲ تاریخ کو امام جعفر صادق کی نیاز کے طور پر کھیر پکانا۔
یہ بھی ماہ ِ رجب کی بدعات میں سے ایک قبیح بدعت ہے,جس سے اجتناب لازمی ہے
۶۔۲۲رجب کو کونڈے بھرنا
لکڑ ہارے کا واقعہ :ماہ ِ رجب بدعات کے عنوان سے راقم آثم کی ایک تقریر یوٹیوب پر موجود ہے,بعض احباب نے لکڑ ہارے کے واقعہ کے متعلق بھی پوچھا تھا,تو مناسب معلوم ہوا کہ یہاں اس کا واقعہ ذکر کردیا جائے ؛سو عرض ہے کہ :
مدینہ طیبہ میں ایک غریب لکڑ ہارے کی بیوی وزیر کے محل میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ وزیر کے محل کے باہر جناب جعفر صادق اپنے ساتھیوں سے فرما رہے تھے: جو شخص ماہ رجب کی 22 تاریخ کو غسل کرکے صاف ستھرا ہو کر میرے نام کی پوریاں بنا کر کھیر 2کونڈوں میں بھر کر میرے نام پر فاتحہ کرے اور بارگا الٰہی میں اپنی مراد اور حاجت پیش کرے۔اگر اسکی حاجت پوری نہ ہو تو کل قیا مت کے دن میرا گریبان پکڑ لے۔لکڑہارے کی بیوی نے ایسا ہی کیا؛ چنانچہ اسکا شوہر بہت سارا مال لے کر لوٹا اور شاندار محل تعمیر کرکے اس میں رہنے لگا۔ وزیر کی بیوی نے کونڈوں کا انکار کیا تو اسکے شوہر کی وزارت چلی گئی پھرجب اس نے کونڈوں کی حقیقت کو تسلیم کرکے کونڈے بھر ے تو اسکی وزارت بحال ہو گئی۔اسکے بعد بادشاہ اور اس کی قوم کے لوگ ہر سال بڑے اہتمام سے کونڈے بھرنے لگے ۔ اندازہ کیجئے کہ اس کہانی میں 22رجب کی تاریخ متعین کی گئی ہے جو جناب جعفر صادق رحمہ اللہ کی نہ تاریخ پیدائش ہے نہ تاریخ وفات ہے۔ نہ ہی انکی زندگی کے کسی اہم واقعے سے اسکا تعلق بنتا ہے(آپ کی حیات کے لئے دیکھئے:سیر أعلام النبلاء:۶؍۲۵۵۔۲۷۰,شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی منہاج السنہ:۴؍۵۴,مجموع فتاوی ابن تیمیہ:۱۳؍۲۶۳) ایک اہم بات یہ ہے کہ قصے میں مدینہ کی جس بادشاہت کا ذکر ہے تاریخ میں اسکا کوئی ذ کر نہیں پایا جاتا۔ جناب جعفر صادق رحمہ اللہ کے دور حیات میں مسلمانوں کا دار الخلافہ یا تو دمشق تھا یا بغداد تھا۔ اصل میں اسکے پیچھے رافضیوںکی ایک گھنا ؤنی سازش کارفرما ہے ۔ بات در اصل یہ ہے کہ 22رجب سیدنا امیر معاویہ کی وفات کا دن ہے۔یہ لوگ ان کی وفات کے دن خوشی منا تے ہیں اور اس دن میں کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں مگر اپنے اس خبث باطن پر پردہ ڈالنے کیلئے لکڑہارے کی دا ستان تراشی گئی ہے۔کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے یہ بدعت ریاست رامپور میں ۱۹۰۶ء امیر مینائی لکھنوی کے خاندان میں شروع کی گئی تھی(یعنی یہ ہندوستانی بدعت ہوئی)
۷۔مردو ں کی روحوں کی طرف سے صدقات وخیرات کرنا.
اس ماہ کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ بعض لوگ مردوں کی طرف سے خوب صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور مخصوص ثواب کی امید رکھتے ہیں ,حالانکہ یہ عمل بھی بدعت ہے,صدقہ و خیرات کسی ماہ میں کیا جا سکتا ہے مگر مخصوص ثواب کی امید اور مخصوص انداز سے کوئی عمل انجام دینا دین و شریعت کی روح کے یکسر منافی ہے اور عند اللہ ناقابل ِ قبول ہے
۸۔ بالخصوص اس ماہ قبروں کی زیارت کرنا ( خاص کر نبیٔ کریم ﷺ کی قبر کی زیارت کرنا)بعض ملانوں نے یہ بدعت بھی ایجاد کر رکھی ہے کہ اس ماہ میں خصوصی طور پر نبی ٔ کریمﷺ کی قبر کی زیارت کیا جانا چاہئے ,چنانچہ آپ مشاہدہ فرمائیں گے کہ لوگ بڑی تعداد میں مسجد نبوی کی زیارت کرتے ہیں اور قبر ِ نبیﷺکے پاس اژدحام لگا رہتا ہے,اور مخصوص نظریے کے ساتھ زیارت ِ قبر ِ نبیﷺ کی جاتی ہے
۹۔ مخصوص دعائیں پڑھنا( جو غیر ماثور ہ ہیں),اس ماہ میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ,اور اس کی خاص فضیلت پر پوسٹر وغیرہ بھی شائع کئے جاتے ہیں , خاص کر (اللهُمَّ باركْ لنا في رجَبٍ وشعبانَ وبَلِّغْنا رمَضَانَ)والی دعا پڑھنا , اور اس کی فضیلت پر لوگوں کو ابھارنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ نبی ٔ کریمﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے,حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہے جس میں یہ آتا ہے (كان إذا دخل رجبٌ قال : ” اللهم بارِكْ لنا في رجبٍ وشعبانَ ، وبلِّغنا رمضانَ وكان إذا كانت ليلةُ الجُمُعةِ قال : هذه ليلةٌ غَرَّاءُ ، ويومٌ أَزْهَرُ “)(مسند عبد اللہ بن مسند حدیث نمبر:۲۳۴۶,شعب الایمان از بیہقی حدیث نمبر:۳۸۱۵,فضائل الأوقات از بیہقی نمبر:۱۴,عمل الیوم و اللیلۃ از ابن السنی حدیث نمبر:۶۵۹,علامہ البانی نے اسے ضعیف الجامع نمبر(۴۳۹۵)اور شیخ احمد شاکر نے مسند احمد(۴؍۱۰۱)میں ضعیف قرار دیا ہے)
۱۰۔رجب کے مہینہ میں کثرت سے عمرہ کرنا۔
اس ماہ کی ایک عظیم بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ لوگ اس ماہ میں بہ کثرت عمرہ کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ نبی ٔ کریمﷺ نے اس ماہ میں عمرے کئے تھے حالانکہ بخاری میں وارد اس حدیث پر غور کیجئے تو اس کی حقیقت کا پتہ چل جائے گا,ملاحظہ فرمائیں ابو عبد الرحمن (عبد اللہ بن عمر,رضی اللہ عنہما)سے پوچھا گیا ,پوچھنے والے حضرت عروہ بن زبیر تھے,پوچھا 🙁كَمِ اعتمَرَ النَّبيُّ ﷺ؟ فقال: أربعًا، إحْداهُنَّ في رَجَبٍ. قال:وسمعنا استنان، عائشة أم المؤمنين في الحجرة، فقال عروة يا أماه، يا أم المؤمنين. ألا تسمعين ما يقول أبو عبد الرحمن. قالت ما يقول قال يقول إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتمر أربع عمرات إحداهن في رجب. قالت يرحم الله أبا عبد الرحمن، ما اعتمر عمرة إلا وهو شاهده، وما اعتمر في رجب قط. (بخاری حدیث نمبر: ۱۷۷۶))(ترجمہ: نبی ٔ کریمﷺنے کتنے عمرے کیے تھے,فرمایا:چار ,ان میں سے ایک رجب کے مہینے میں ادا فرمایا تھا ,فرمایا:اورہم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے ان کے مسواک کرنے کی آواز سنی تو عروہ نے پوچھا اے میری ماں ! اے ام المومنین ! ابوعبدالرحمن کی بات آپ سن رہی ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہہ رہے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے چار عمرے کئے تھے جن میں سے ایک رجب میں کیا تھا، انہوں نے فرمایا کہ اللہ ابوعبدالرحمن پر رحم کرے ! نبی ٔ کریم ﷺ نے تو کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں وہ خود موجود نہ رہے ہوں، آپ ﷺ نے رجب میں تو کبھی عمرہ ہی نہیں کیا۔)
۱۱۔جشن ِ اسراء و معراج :
ماہ رجب کے حوالے سے ایک اور بدعت 27رجب کو جشن معراج کے نام سے جاری کی گئی ہے۔اس رات میں مختلف عبادتیں انجام دی جاتی ہیں جن کے بارے میں کتاب وسنت میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔ستائیسویں رجب کی رات کو قیام کرنا ، قمقمے ,روشنیاں ,اور بجلیوں سے اپنے گھروں کو روشن کرنا,چراغاں کرنا , شبِ معراج نماز پڑھنا، شب معراج کے نام پر خصوصی محفلیں منعقد کرنا، واقعۂ اسراء ومعراج پڑھنا اور پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سنانا اور واقعہ ٔ معراج یاد کرنا اور کرانا کہ یہ رات ہی معراج کی رات ہے۔ بغیر کسی شرعی دلیل سے بعض ایام کو دیگر ایام پر فوقیت دینا یا انہیں افضل سمجھناایک غلط عقیدہ ہے۔اس رات کو جشن منانا اور اسے عبادتوں کیلئے مختص کرنا کئی ایک لحاظ سے غلط اور نامناسب ہے۔
اس سلسلہ میں چند باتیں غور طلب ہیں
(۱)۲۷؍رجب کو ہی شب معراج سمجھنا درست عمل نہیں، کیوں کہ اب تک نہ اس کے دن مہینے اور سال کا درست تعین کیاجاسکا اور نہ ہی کوئی حتمی بات اس تعلق سے ذکر کی گئی ہے ؛۔ تاریخ وسیرت کے علمائے کرام نے6 مختلف اقوال پر اختلاف کیا ہے اس لیے 27 کی شب ہی کو شب معراج سمجھنا ٹھیک نہیں( دیکھئے :الرحیق المختوم ص ۱۹۷)۔
(۲)اگر اس رات کا ٹھیک ٹھیک پتہ چل بھی جائے تو بھی اس رات میں مخصوص عبادات انجام دینا ناجائز کام ہے جس کا نبی کریمﷺ نے حکم دیا نہ اس پر عمل کیا۔نہ خلفائے راشدین سے اور نہ آپ کے صحابہ ٔ کرام سے یہ عمل ثابت ہے ۔ اس جشن کو مناتے وقت بہت سے غیر شرعی اور نامناسب امور بھی انجام دئیے جاتے ہیں۔ اس میں بالعموم ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جوشرعی فرائض تک کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کرتے۔ بعض 5وقت کی نماز ادا کرنے کے لیے مسجدمیں تو جاتے نہیں، مگر اس قسم کی محفلوں میں بڑی سرگرمی اور اہتمام سے شریک ہوتے ہیں۔یہ بہت سی احادیث صحیحہ کا انکار بھی ہے جن میں دین میں بدعات داخل کرنے سے سختی سے منع کیاگیا ہے
(۳)اس رات کی تعیین میں اختلاف کی وجہ بھی اللہ کی حکمت و مصلحت پر مبنی ہے
۱۲۔ستائیسویں رات کو قیام کرنا،نماز شب معراج پڑھنا، محفلیں منعقد کرنااور واقعہ معراج پڑھنا ( کہ یہ اسراء ومعراج کی رات ہے ، تاریخ معراج سے متعلق مؤرخین کے چھ اقوال ہیں(دیکھئے ٫٫الرحیق المختوم،، ۱۹۷) اس لئے واقعہ معراج کیلئے ستائسویں رجب ہی کومعین کرنا بہر صورت درست نہیں ،بفرض محال اگر مان بھی لیا جائے تو اس رات قیام اور دوسرے اعمال کی مشروعیت کی کوئی دلیل نہیں
سماحۃ الشیخ ابن باز ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( «وهذه الليلة التي حصل فيها الإسراء والمعراج لم يأتِ في الأحاديث الصحيحة تعيينها، لا في رجب ولا غيره، وكل ما ورد في تعيينها فهو غير ثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم عند أهل العلم بالحديث، ولله الحكمة البالغة في إنساء الناس لها»… ولو ثبت تعيينها لم يجز للمسلمين أن يخصوها بشيء من العبادات، ولم يجز لهم أن يحتفلوا بها؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه ي لم يحتفلوا بها، ولم يخصوها بشيء، ولو كان الاحتفال بها مشروعًا لبينه الرسول صلى الله عليه وسلم للأمة إما بالقول وإما بالفعل، ولو وقع شيء من ذلك لعرف واشتهر، ولنقله الصحابة ي إلينا»)(مجموع فتاوی و مقالات متنوعۃ: ۱؍۱۸۳)
فقیہ ِ مملکت علامہ ابن عثیمین ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( «فأما ليلة السابع والعشرين من رجب فإن الناس يدّعون أنها ليلة المعراج التي عرج بالرسول صلى الله عليه وسلم فيها إلى الله عز وجل وهذا لم يثبت من الناحية التاريخية، وكل شيء لم يثبت فهو باطل»)(مجموع فتاوی ابن عثیمین:۳؍۲۹۷)
۱۳۔رجبی صیام و قیام کا اہتمام : ما ہ رجب کی مروجہ بدعات میں سے ایک یہ ہے کہ خصوصیت کے ساتھ اس مہینہ میں قیام وصیام کا اہتمام کیا جاتا ہے۔اس مہینے کی پہلی، دوسری، تیسری اور ساتویں تاریخ کا روزہ اور کبھی پورے مہینے کا روزہ رکھا جاتا ہے۔ ان روزوںکوسنت ثابت کرنے کے لیے کچھ ایسی احادیث کا سہارا لیا جاتا ہے جو ضعیف ہیں یا من گھڑت ہیں۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس مسئلے پر یوں رقمطراز ہیں:( «أما تخصيص رجب وشعبان جميعًا بالصوم، أو الاعتكاف، فلم يرد فيه عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء ولا عن أصحابه، ولا أئمة المسلمين، بل قد ثبت في الصحيح أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم شعبان، ولم يكن يصوم من السنة أكثر مما يصوم من شعبان، من أجل شهر رمضان وأما صوم رجب بخصوصه فأحاديثه كلها ضعيفة بل موضوعة لا يعتمد أهل العلم على شيء منها وليست من الضعيف الذي يروى في الفضائل، بل عامتها من الموضوعات المكذوبات »)(ترجمہ:’’رجب اور شعبان کے مہینوں کو ایک ساتھ روزے یا اعتکاف کے لیے مخصوص کرنے کے متعلق نبی اکرمﷺ ، صحابہ کرامؓ ، یا ائمہ مسلمین سے کوئی چیز وارد نہیں بلکہ صحیح بخاری ومسلم میں یہ بات ثابت ہے کہ اللہ کے رسول ماہ شعبان میں کثرت سے روزہ رکھتے تھے۔ آپ پورے سال میں ماہ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں نفلی روزے نہیں رکھتے تھے البتہ جہاں تک رجب کے روزے کی بات ہے تو اسکے بارے میں ساری احادیث ضعیف بلکہ موضوع ہیں۔ اہل علم ان میں سے کسی کو لائق اعتماد اور قابل عمل نہیں سمجھتے۔یہ احادیث ضعیف روایات کے اس گروہ میں سے نہیں جو فضائل کے سلسلے میں بیان کی جاتی ہیں بلکہ یہ گھڑی ہوئی حدیثیں ہیں۔‘‘(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ : ۲۵؍۲۹۰۔۲۹۱) ۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ماہ رجب کے روز ے کی فضیلت میں نبی کریم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کوئی چیز صحیح ثابت نہیں (لطائف المعارف؍۲۹۰)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ماہ رجب کی فضیلت یا اس کے روزے کی فضیلت یا اس کے کسی مخصوص دن کے روزے کی فضیلت ، یا اس کے کسی مخصوص رات میں قیام کرنے کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں جو قابل حجت ہو ۔مجھ سے پہلے امام اسماعیل الہروی نے بھی اسی بات کی صراحت فرمائی ہے (تبیین العجب بما رود فی فضل رجب۱۱) ۔
علامہ ابن القیم ۔رحمہ اللہ۔ ماہ رجب کے روزے کے سلسلے میں نبی کریمﷺ کے طریق کار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتےہیں : «لم يصم الثلاثة الأشهر سردًا ـ رجب وشعبان ورمضان ـ كما يفعله بعض الناس، ولا صام رجبًا قط، ولا استحب صيامه، بل روي عنه النهي عن صيامه ذكره ابن ماجه»(ترجمہ:’’ آپ نے مسلسل3 مہینوں:رجب ، شعبان اور رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے جیسا کہ بعض لوگوں کاطریقہ ہے۔ نہ ہی آپ نے رجب کا روزہ رکھا، نہ ہی اس کے روزے کو پسندفرمایاہے بلکہ آپ سے رجب کے روزے کی ممانعت کے سلسلے میں حدیث وارد ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔‘‘ (زاد المعاد ۲؍۶۴)۔
۱۴۔فرع اور عتیرہ رجب:
ایک اور رسم جو زمانہ جاہلیت ہی سے عربوں میں چلی آتی تھی۔ اس کا نام ’’فرع‘‘ اور ’’عتیرہ‘‘ ہے۔’’فرع ‘‘کا مطلب ہے جانور کا پہلا بچہ۔عرب اونٹ اور بکری کے پہلے بچے کو اپنے بتوں کے نام پر ذبح کیا کرتے تھے۔حرمت والے4 مہینوں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے وہ ماہ رجب کی تعظیم کیا کرتے تھے اور اس میں بتوں کے نام پرجانور ذبح کیا کرتے تھے۔ ’’عتیرہ رجب‘‘ اس جانور کو کہا جاتا تھا جسے ماہ رجب میں بتوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا۔عید الاضحی کی طرح یہ چیز ان میں عام طور سے رائج تھی ۔ اسلام آیا تو نبی کریم نے کچھ عرصہ بعد اس قبیح رسم کا خاتمہ کر دیا۔ نبی کریم نے اعلان فرما دیا کہ: لَا فَرَعَ وَلَا عَتِیرَۃَ(صحیح البخاری حدیث نمبر:۵۴۷۳,مسلم حدیث نمبر:۱۹۷۶)۔ ’’ اب کوئی فرع اور عتیرہ نہیں ہوگا‘‘ ۔
بلکہ شریعت نے اپنے ماننے والوں کوعید الاضحی کا تہوار عطا فرمایا کہ اس روز عید مناؤ اور اللہ کے نام پر اپنے بہترین پیارے پیارے جانور ذبح کرولہذا رجب کی افضلیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس مہینے میں جانور ذبح کرنا جائز نہیں ۔ اس میں اہل جاہلیت کی مشابہت بھی ہے اور نبی کریم کے حکم کی خلاف ورزی بھی پائی جاتی ہے۔ ماہ رجب میں عمومی طور پر جانور ذبح کرنے پر کوئی پابندی نہیں مگراس مہینے کی خاص فضیلت کا اعتقاد رکھ کر اور یہ سمجھ کر جانور ذبح کرنا کہ یہ بڑے ثواب کا کا م ہے تو یہ اسی زمانہ جاہلیت کے عتیرہ کی مانند ہو جائے گا
۱۵۔من جملہ بدعات کے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ روحوں کی طرف سے خیرات بانٹی جاتی ہیں,، اجمیر کا سفر کرکے معین الدین چشتی کے مزار پہ میلہ ٹھیلہ لگایا جاتا ہے، قبروں کا سجدہ وطواف اور ان پہ چادر وپھول چڑھایا جاتا ہے،مخصوص پکوان پکانا بھی ان کے معمولات میں شامل ہوتا ہے، بغرض تبرک رجب کی انگوٹھی پہننااور مخصوص قسم کے اوراد وظائف کا اہتمام کرنا بھی بہت سارے لوگوں کے بدعی اعمال میں سے ایک ہے
یہ چند بدعات تھیں ؛جن کا تذکرہ کر دیا گیا,اللہ تعالی سے دست بہ دعا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں سنت کا شیدائی و فدائی بنائے اور بدعات و خرافات سے احتراز کرنے والا بنائے ,آمین یا رب العالمین