ماہ ِ رمضان کا استقبال خوش دلی سے کیجئے

از قلم:۔عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد

ماہ ِ رمضان کی آمد آمد ہے,اسلامیان ِ عالم کے قلب و جگر فرط ِ مسرت سے شادیانے بجا رہے ہیں؛ماہ ِ رمضان ایک ایسا مبارک مہینہ ہے,جو صرف امت محمدیہ کا خاصہ ہے, جس کے متعلق آپﷺ نے فرمایا:( «مَنْ صَامَ رمضان إيماناً واحْتساباً غُفِرَ لَهُ ما تقدَّم مِن ذنبه)(بخاری حدیث نمبر:۳۸,مسلم حدیث نمبر:۷۶۰)(ترجمہ:جو شخص رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی امید سے رکھے اور اس میں قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردئے جاتے ہیں,اور جو شخص لیلۃ القدر میں حالتِ ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے تو  اس کے پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں))نیز فرمایا: (إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أبْوَابُ الجَنَّةِ، وغُلِّقَتْ أبْوَابُ جَهَنَّمَ، وسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ) (بخاری حدیث نمبر: ۳۲۷۲)، مسلم حدیث نمبر:۱۰۷۹)(ترجمہ: جب رمضان داخل ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے))

لہذا ہمیں اس امر پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ہمیں اس ماہ ِ عظیم کا استقبال کیسے کرنا چاہئے ,تو آئیے ہم جانیں کہ اس ماہ کا کیسے استقبال کریں

(۱)حسن ِ نیت کے ساتھ رمضان کا استقبال :

جملہ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے,اور بندہ ٔ مؤمن نیت کے اعتبار سے صلہ و ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے,جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( إنَّما الأعمالُ بالنِّيّاتِ وإنَّما لكلِّ امرئٍ ما نوى)(بخاری حدیث نمبر:۱) (ترجمہ:عملوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے,اور ہر انسان کے لئے وہی ہے,جس کی وہ نیت کرے)

لہذا رمضان کی آمد سے قبل نیت کی تصحیح ضروری ہے,اور یہ بھی لازم ہے کہ اخلاصِ نیت سے روزہ رکھے,اللہ تعالی نے فرمایا:( لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ)(سورہ ٔ البقرہ:۲۸۴)(ترجمہ ٔ آیت: للہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے جی میں ہے یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا),نیز اللہ تعالی کا ارشاد ِ گرامی ہے(مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ”﴿١٥﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ) ﴿١٦﴾ (سورۃ ہود:۱۵۔۱۶)(ترجمہ ٔ آیت:”جو شخص دنیا کی زندگی اور اس کی زینت پر فریفتہ ہوا چاہتا ہو ہم ایسوں کو ان کے کل اعمال (کا بدلہ) یہی بھرپور پہنچا دیتے ہیں اور یہاں انہیں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہاں یہی وه لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں سوائے آگ کے اور کچھ نہیں اور جو کچھ انہوں نے یہاں کیا ہوگا وہاں سب اکارت ہے اور جو کچھ ان کےاعمال تھے سب برباد ہونے والے ہیں)نیز فرمایا:( وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ۔” (سورۃ البینۃ :۵)(ترجمہ ٔ آیت:انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر) نیز ارشاد ہے:(إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ﴿٢﴾ أَلَا لِلَّـهِ الدِّينُ الْخَالِصُ)(سورۃ الزمر:۲-۳)(ترجمہ ٔ آیت:یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے (2)خبردار! اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے)

(۲)خوشی و مسرت کا اظہار :

اس ماہ کی آمد کے ساتھ ہی کچھ مسلمانوں کے چہرے فق پڑ جاتے ہیں,چیں بجبیں ہونا شروع ہوجاتے ہیں,جز بز ہوجاتے ہیں کہ اب رمضان کے مہینہ کا روزہ رکھنا پڑے گا ,حالانکہ یہ ماہ ِ عظیم گیارہ مہینوں کے بعد آتا ہے,اور ایک مہمان کی صورت میں آتا ہے,اور یہ سب جانتے اور  مانتے ہیں کہ ایک مہمان کی آمد پر ایک بندہ کو کس طرح خوش ہونا چاہئے ,کس طرح اس کا استقبال ہونا چاہئے,اپنے گھر بار کو کس طرح سجانا چاہئے,خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا چاہئے,اور استقبال کے لئے اس کی آمد سے پہلے آمادہ رہنا چاہئے ,ساتھ ہی یہ بھی جاننا چاہئے کہ ماہ ِ رمضان کی آمد ایک عظیم رحمت ِ الہی ہے ,اور رحمت ِ ربانی کی آمد پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے ,اللہ تعالی نے فرمایا:( قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ)(سورہ ٔ یونس:۵۸)(ترجمہ ٔآیت:  اے نبی ! کہہ دیجئے  کہ یہ کتاب اللہ کے فضل اور اسکی مہربانی سے نازل ہوئی ہے تو چاہیے کہ لوگ اس سے خوش ہوں یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔)

(۳)رمضان کی عظمت کا احساس :

ماہ ِ رمضان ایک عظیم ماہ ہے,جس کے بڑے فضائل ہیں,اللہ کے یہاں اس کا مقام و مرتبہ انتہائی عظیم ہے,جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺنے فرمایا:(إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أبْوَابُ الجَنَّةِ، وغُلِّقَتْ أبْوَابُ جَهَنَّمَ، وسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ) (بخاری حدیث نمبر: ۳۲۷۷)، مسلم حدیث نمبر:۱۰۷۹)(ترجمہ: جب رمضان داخل ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور شیاطین کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے),نیز درج ذیل احادیث پر غور فرمائیں:

(عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِذَا جَاء رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتْ الشَّیَاطِیْنُ)(مسلم حدیث نمبر:1079،نسائي 2100مسند أحمد  حدیث نمبر:8669، سنن کبری از بیہقی  حدیث نمبر7695)(ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔‘‘)

(عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ: إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ، صُفِّدَتِ الشَّیَاطِیْنُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ،( وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، فَلَمْ یُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَلَمْ یُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَیُنَادِي مُنَادٍ: یَا بَاغِيَ الْخَیْرِ، أَقْبِلْ، وَیَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ، وَ ِﷲِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذٰلِکَ کُلَّ لَیْلَةٍ. )(ترمذی حدیث نمبر:682، وابن ماجه  حدیث نمبر: 1642، وابن حبان حدیث نمبر: 3435,صحیح ابن خزیمہ حدیث :۱۸۸۳,صحیح الجامع حدیث نمبر:۷۵۹)(ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ نے فرمایا: جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘)

(عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: أَتَاکُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَکٌ فَرَضَ ﷲ عَلَیْکُمْ صِیَامَهُ تُفْتَحُ فِیْهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَتُغْلَقُ فِیْهِ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَتُغَلُّ فِیْهِ مَرَدَةُ الشَّیَاطِیْنِ ،فِیْهِ لَیْلَةٌ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَ خَیْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ)(نسائی حدیث نمبر: 2106،  و السنن الکبری، حدیث نمبر: 2416، مصنف ابن أبي شیبة حدیث نمبر: 8867، ، ترغیب و ترہیب از منذری حدیث نمبر:1492،مجمع الزوائد، 3/143؛صحیح الجامع حدیث نمبر:۵۵,صحیح الترغیب حدیث نمبر:۹۹۹)(ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس ماہ رمضان آیا۔ یہ مبارک مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کیے ہیں۔ اس میں آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور بڑے شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ اس (مہینہ) میں ﷲ تعالیٰ کی ایک ایسی رات (بھی) ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جو اس کے ثواب سے محروم ہوگیا سو وہ محروم ہو گیا۔‘‘)

( عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ کَانَ یَقُوْلُ: اَلصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمْعَةُ إِلَی الْجُمُعَةِ وَرَمَضَانُ إِلَی رَمَضَانَ مُکَفِّرَاتٌ مَا بَیْنَهُنَّ إِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ(مسند احمد حدیث نمبر:8700، 9345، 10290، )(ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وسلم نے فرمایا: پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے لے کر دوسرا جمعہ پڑھنا اور ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے روزے رکھنا، ان کے درمیان واقع ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ بن جاتے ہیں، جب تک کہ انسان گناہ کبیرہ نہ کرے)

(۴)رمضان سے پہلے توبہ و استغفار

اللہ کا کوئی ایسا بندہ نہیں جس کے دل و دماغ دنیا کی ہمہ ہمی، چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں، نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطانوں کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کربیٹھتا ہے، لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا اور آئندہ کے لیے توبہ کرتا ہے تواس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو، قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کے لیے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے، ارشاد باری ہے( ”انَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ ویُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ“)(بقرہ، آیت ۲۲۲) ”بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے۔“

غلطی اور گناہ کا احساس اور پھر گریہ و زاری اللہ کو بہت پسند ہے، جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعداپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور اللہ کی عظمت کااعتراف کرلیا اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے، ایک موقع پر رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:( أنَّ اللَّهَ أشدُّ فرحًا بتوبةِ عبدِهِ التّائبِ من رجلٍ أضلَّ راحلتَهُ بأرضِ دوِّيَّةٍ مَهلَكةٍ عليْها طعامُهُ وشرابُهُ فطلبَها فلم يجدْها فقالَ تحتَ شجرةٍ فلمّا استيقظَ إذا بدابَّتِهِ عليْها طعامُهُ وشرابُهُ فاللَّهُ أشدُّ فرحًا بتوبةِ عبدِهِ من هذا براحلتِهِ)(مسلم حدیث نمبر:۲۷۴۷)(ترجمہ ٔ حدیث:اللہ تعالیٰ اپنے موٴمن بندہ کی توبہ سے اتنا خوش ہوتا ہے جیساکہ وہ سوار جس کی سواری کھانے، پانی کے ساتھ کسی چٹیل میدان میں کھوجائے اور وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے نیچے سوجائے، جب آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ سواری کھڑی ہے)

اس لئے رمضان سے پہلے بندہ ٔ مؤمن کو توبہ و استغفار کرلینا چاہئے

(۵)ماہ ِ رمضان کے مقام و مرتبہ اور اہمیت و عظمت  کا احساس :

رمضان سے پہلے بندہ ٔ مؤمن کو ماہ ِ رمضان کے مقام و مرتبہ کا بھی احساس اور شعور ہونا چاہئے,یہ بھی معلوم ہونا چاہئے؛کہ اس کا بھی بہ شدتِ تمام احساس ہونا چاہئے ,نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( ( من قام رمضان إيماناً واحتساباً غُفر له ما تقدم من ذنبه )(بخاری حدیث نمبر:مسلم حدیث نمبر:)نیز آپﷺ نے فرمایا:( من قام مع الامام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة)(ابو داؤد حدیث نمبر:۱۳۷۵,ترمذی حدیث نمبر:۸۰۶,نسائی حدیث نمبر:۱۶۰۵,ابن ماجہ حدیث :۱۳۲۷,مسند أحمد حدیث نمبر:۲۱۴۱۹,ارواء الغلیل حدیث نمبر:۴۴۷),نیز اللہ تعالی کے اس فرمان ِ عالی تبار پر بھی غور فرمائیں:( شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ)(سورہ ٔ البقرہ:185)ترجمہ: ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اُسے روزہ رکھنا چاہے ہاں جو بیمار ہو یا مسافر ہو اُسے دوسرے دنوں یہ گنتی پوری کرنی چاہیے اللہ تعالٰی کا ارادہ تمہارے ساتھ آسانی کا ہے سختی کا نہیں وہ چاہتا ہے تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالٰی کی دی ہوئی ہدایت پر اس طرح کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو)

(۶)رمضان کے لئے نظام الأوقات مرتب کرنا:

ایک بندہ ٔ مسلم کو چاہئے کہ رمضان داخل ہونے سے پہلے اپنے جملہ اعمال کا نظام الأوقات مرتب کرے,اس کے لئے شیڈول تیار کرے,فرض نمازیں تو پڑھنی ہی  ہیں,مگر نوافل کے لئے  نظام الأوقات بنائے,قرآن ِ کریم کی تلاوت کے لئے شیڈول تیار کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ بار قرآن کریم کو ختم کر سکے,تراویح کے لئے اپنے آپ کو تیار بھی کرے اور اپنے وقت کو مرتب کرے,وغیرہ وغیرہ

(۷)افطاری کے لئے عزم کرنا

بندہ ٔ مؤمن روزہ افطار تو کرتا ہی ہے,لیکن رمضان سے پہلے دوسرے بھائیوں کے افطار کروانے کے لئے اپنے اوقات مرتب کرے,کیوں کہ اس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے,حضرت زید بن خالد الجہنی فرماتے ہیں:( «مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا»)(ترمذی حدیث نمبر:۸۰۷,صحیح ابن حبان حدیث نمبر:۳۴۲۹,صحیح الجامع حدیث نمبر:۱۵۶۴)(ترجمہ ٔ حدیث :’’جس شخص نے کسی روزہ دارکو افطارکروایاتواس شخص کوبھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا ثواب روزہ دار کے لئے ہوگا،اورروزہ دارکے اپنے ثواب میں‌ سے کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی۔)

(۸)زندگی کے نئے صفحہ کے آغاز کا پختہ ارادہ کرنا

۱۱ ماہ ایک بندہ ٔ مؤمن جیسے تیسے زندگی گزارتا ہے,رمضان سے قبل چاہئے کہ اپنی زندگی کے نئے صفحے کا آغاز کرنے کا پختہ ارادہ کرے,اور اللہ سے یہ عہد ِ وفا باندھے کہ رمضان سے نئی زندگی کا آغاز کریں گے اور بے ڈھنگم زندگی سے اجتناب کریں گے

جملہ معاصی سے اجتناب کے لئے پابند ِ عہد ہونا

ماہ ِ رمضان کی آمد سے پہلے ہمیں اس امر کے لئے پابندِ عہد ہونا چاہئے کہ اس ماہ کی عبادت و اطاعت کی صیانت و حفاظت کرنی ہے,نبی ٔ کریمﷺنے فرمایا:( اس ماہِ مبارک میں ہم لڑائی جھگڑا اور ایک دوسرے کو گالی دینے سے پرہیز کریں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (الصِّيَامُ جُنَّةٌ، وإذَا كانَ يَوْمُ صَوْمِ أحَدِكُمْ فلا يَرْفُثْ ولَا يَصْخَبْ، فإنْ سَابَّهُ أحَدٌ أوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ إنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ والذي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بيَدِهِ، لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِن رِيحِ المِسْكِ. لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إذَا أفْطَرَ فَرِحَ، وإذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بصَوْمِهِ) (بخاری حدیث نمبر:(۱۹۰۴)، مسلم حدیث نمبر:(۱۱۵۱)(ترجمہ:روزہ ایک ڈھال ہے، جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو فحش اور دل لگی کی باتیں نہ کرے اور نہ شورو غل کرے، اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ کرے یا اس سے جھگڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں، اور قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے یہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے، روزہ دار کے لئے خوشیوں کے دو مواقع ہیں جن میں وہ خوش ہوتا ہے، جب وہ افطار کرتا ہے اور جب اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو(روزےکا بدلہ دیکھ کر) خوش ہوگا)

(۱۰) رمضان تک پہنچنے کے لئے دعا کرنا

دعا کی کیا اہمیت ہے؟کیا مقام ہے؟قرآن ِ کریم اور احادیث نبویہ میں انتہائی بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے,فرمایا: فرمانِ باری تعالی ہے( وقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرين)( ۔ [غافر: 60])(ترجمہ ٔ آیت:آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے: ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ناک بھوں چڑھاتے ہیں عنقریب ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے) نیز فرمانِ باری تعالی ہے( ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَلا تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ)(سورہ ٔ [الأعراف: 55، 56)(ترجمۂ آیت:اپنے پروردگار کو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے پکارو۔ یقینا وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا, اور زمین میں (حالات کی) درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو۔ اور اللہ کو خوف اور امید سے پکارو۔ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے)

نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( ليسَ شيءٌ أَكْرمَ على اللَّهِ منَ الدُّعاءِ)(ترمذی حدیث نمبر:۳۳۷۰,ابن ماجہ حدیث نمبر:۳۸۲۹؛مسند أحمد حدیث نمبر:۸۷۴۸,صحیح ابن حبان حدیث نمبر:۸۷۰)(ترجمہ ٔ حدیث:دعا سے بڑھ کر کوئی بھی چیز اللہ کے یہاں مکرم و معزز نہیں ہے )

اس لئے بندہ ٔ مؤمن کو رمضان تک پہنچنے اور ماہ ِ رمضان میں زیادہ سے زیادہ اعمال کرنے؛اس کی توفیق ملنے ,اور پھر قبولیت ِ اعمال کی دعا کرنی چاہئے

(۱۱)جملہ احکام کی معرفت:

انسان کا بھی عجیب معاملہ ہے,اگر کوئی سامان خریدنا ہو تو مختلف طریقے سے مختلف افراد سے مختلف قسم کے استفسارات کرتا ہے,مگر اسلامی احکام کے لئے اس قدر جتن کرنے کی زحمت نہیں کرتا ہے اور نہ لوگوں(علماء)سے رابطے کرتا ہے ,حالانکہ اسلامی احکامات کی معرفت کے لئے ضروری  ہے کہ ثقہ  اور معتبرعالم سے ہی اپنے دین کے احکامات کی معرفت حاصل کرے ,رمضان سے پہلے ضروری ہے کہ بندہ خصوصی طور پر رمضان کے مسائل و احکامات کی جانکاری ضروری طور پر حاصل کرے اور اسے اپنے پلو سے باندھنے کی کوشش کرے؛اس سلسلہ کی جو اجلاس,کانفرنسیں,سیمینارز اور تقریبیں منعقد ہوتی ہیں,ان میں انتہائی محبت و عقیدت سے شریک ہو,اور اہل علم کے دروس و محاضرات سے بھر پور فائدہ حاصل کرے

(۱۲)مکمل روزہ رکھنے کا پختہ عزم :

ماہ ِ رمضان کے آتے ہی بعض لوگ جزبز ہونا شروع ہوجاتے ہیں,اور مختلف قسم کے حیلہ تراشنا شروع کر دیتے ہیں,حالانکہ روزہ کھانے کے متعلق بڑی شدید وعید آئی ہے؛صحیح حدیث میں آپﷺکے ایک خواب کا تذکرہ ہوا ہے,فرمایا:( « بَينا أنا نائمٌ أتاني رجلانِ ، فأخذا بِضَبْعَيَّ فأتَيا بي جبلًا وعْرًا ، فقالا : اصعدْ . فقلتُ : إنِّي لا أُطيقُهُ . فقال : إنَّا سَنُسَهِّلُهُ لكَ . فصعدتُ ، حتَّى إذا كنتُ في سَواءِ الجبلِ إذا بأصواتٍ شديدةٍ . قلتُ : ما هذهِ الأصواتُ ؟ قالوا : هذا عُوَاءُ أهلِ النَّارِ ثمَّ انْطُلِقَ بي فإذا أنا بقَومٍ مُعلَقِينَ بعراقيبِهِم ، مُشَقَّقَةٌ أشداقُهُم ، تسيلُ أشداقُهُم دمًا . قال : قلتُ : مَن هؤلاءِ ؟ قال : الَّذينَ يُفطِرونَ قبلَ تَحلَّةِ صَومِهِم »)(نسائی حدیث نمبر:۳۲۸۶,صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر:۱۹۸۶,صحیح ابن حبان حدیث نمبر:۷۴۹۱؛علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے,دیکھئے:صحیح الترغیب حدیث نمبر:۲۳۹۳؛علامہ نے موارد الظمآن حدیث نمبر(۱۵۰۹)میں بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)(ترجمہ ٔ  حدیث : میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دو بندے آئے ،انہوں نے مجھے بازؤں سے پکڑا ،اور ایک دشوار گذار مشکل چڑھائی والے پہاڑ پر لے آئے ،اورکہنے لگے : اس پر چڑھیے ، میں نے انہیں کہا کہ مجھ میں اس پر چڑھنے کی طاقت نہیں ، وہ دونوں کہنے لگے ہم آپ کے لیے اسے آسان کردیں گے ، تومیں اس پہاڑ پر چڑھ گیا جب اوپر پہنچا تووہاں شدید قسم کی آوازیں آرہی تھیں ، میں نے کہا یہ آوازيں کیسی ہیں ؟وہ کہنے لگے : یہ جہنمیوں کی آہ بکا ہے ، پھر وہ مجھے آگے لے گئے جہاں پر کچھ لوگ کونچوں کے بل لٹک رہے تھے اوران کی باچھیں کٹی ہوئي تھیں ، اوران کی باچھوں سے سے خون بہہ رہا تھا ، میں نے کہا یہ لوگ کون ہیں ؟وہ کہنے لگے : یہ وہ لوگ ہیں جو افطاری سے قبل ہی اپنے روزے افطار کرلیا کرتے تھے)

انتہائی عجلت میں یہ چند امور ذہن کے اسکرین آتے گئے جو زیر ِ قلم آگئے ہیں,اللہ سے دعا ہے کہ رب کریم ہمیں رمضان تک پہنچائے اور رمضان کی برکات و خیرات ,الطاف و عنایات سے مستفید ہونے کی توفیق بخشے اور اس میں صیام و قیام ,دعا و مناجات اور جملہ عبادات بہ احسن طریق انجام دینے کی توفیق بخشے؛آمین یا رب العالمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *