درس ِ حدیث
اختر سہیم فیضی ہبلی کرناٹک
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا النَّجَاةُ ؟ قَالَ : ” امْلِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ، وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ، وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ. ( سنن ترمذی ابواب الزہد حدیث نمبر 2406 صحیح الترغیب 3331)
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! نجات کی کیا صورت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھر کی وسعت میں مقید رہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نجات حاصل کرنے کے شدید حریص تھے اس لئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات کے راستے، اسباب اور اعمال کے بارے میں اکثر پوچھتے رہتے تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان راستوں کی خوب رہنمائی بھی کرتے تھے انہی میں سے ایک حدیث کی تھوڑی سی وضاحت اس تحریر میں کی گئی ہے کیا پتہ کوئی اس پر عمل پیرا ہوجائے اور انہیں نجات مل جائے چلئے اس حدیث پر غور کرتے ہیں ۔
محترم قارئین کرام!
کیا آپ بھی نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ بھی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو نا چاہتے ہیں؟ کیا آپ نجات کے لئے کسی راستے کو ڈھونڈھ رہے ہیں؟ تو پھر مذکورہ حدیث کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ان شاءالله نجات کے راستے آپ کو مل جائیں گے ۔
مذکورہ حدیث میں نجات کے تین اسباب بیان کئے گئے ہیں چلئے باری باری ہرایک کو سمجھتے ہیں
1️⃣ زبان کی حفاظت
حدیث مذکور میں نجات کا پہلا راستہ زبان پر کنٹرول اور اسکی حفاظت کو قراردیا ہے کیونکہ اعضاء جسمانی میں زبان سب سے خطرناک ہے زبان کی درستگی پر پورے اعضاء جسمانی کی درستگی کا دارو مدار ہے ۔
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَفَعَهُ قَالَ : ” إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ ، فَتَقُولُ : اتَّقِ اللَّهَ فِينَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ، فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا، وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا “.( سنن ترمذی 2407)
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے“
ہمیں چاہیے کہ اپنی زبان سے خیر کی بات نکالیں یا پھر خاموش رہیں، خاموشی میں نجات ہے
2️⃣ گھر کو لازم پکڑیں
گھر اللہ کی ایک نعمت ہے، رہنے کے لئے چھت کا انتظام ہوجائے یہ سعادت مندی کی بات ہے، گھر کی اہمیت و افادیت بہت زیادہ ہے گھر سکون کا ذریعہ اور گھر میں رہنے والوں کے لئے گھر راحت و اطمینان کا سبب بھی ہے گھر کو لازم پکڑنے کا مطلب فتنہ و شر سے بچنے کے لئے گھر میں ٹھہرے رہنا ہے، بلا ضرورت گھر سے دور رہنا اور فالتو اوقات گھر سے باہر گزارنا شر و فتنہ کا سبب ہے اس لئے بلاضرورت گھر سے باہر نہیں رہنا چاہئے گھنٹوں گھنٹہ جو لوگ چائے خانوں اور دیگر جگہوں پر فضول میں گزارتے ہیں وہ لوگ غیبت، چغلی، بہتان تراشی، لعن طعن، اور لایعنی گفتگو سے نہیں بچ پاتے ہیں جو کہ سراسر فتنہ ہے گھر کو لازم پکڑنے کا مفہوم وسیع ہے گھروں میں سنن و نوافل، تلاوت قرآن، ذکر و اذکار اور تنہائی میں رب کی خوب عبادت کرنی چاہئے ۔
3️⃣ گناہوں پر رونا
گناہ کرنے کے بعد احساس ہوجائے اور توبہ کی توفیق مل جائے تو سمجھئے کہ وہ خیر پر ہے آج ہم گناہ تو کرتے ہیں پر گناہوں پر ندامت و شرمندی کے آنسو آنکھوں سے نہیں ٹپکتے آج ہمارے دل اتنے سخت ہوچکے ہیں کہ گناہ کے بعد ہمیں رونا نہیں آتا، خطاء و نسیان اور بھول چوک تو انسان کی فطرت میں داخل ہے گناہ سرزد ہوجانا عام بات ہے پر گناہوں پر اصرار اور توبہ واستغفار نہ کرنا یہ سب سے خطرناک ہے گناہ کو یاد کرکے رونا اور ندامت و شرمندگی کے آنسو بہادینا نجات کا سبب ہے ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ قیامت کے دن سات لوگوں کو عرش الہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں سے ایک وہ خوش نصیب ہوگا جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ “.( بخاری 660)
وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور ( بے ساختہ ) آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان تینوں اسباب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم بھی نجات حاصل کرسکیں۔