تحریر:ابو زھیر محمد یوسف بٹ بزلوی۔
(فاضل کنگ سعود یونی ورسیٹی ریاض)
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد!
نومولود کے کان میں آذان اوراقامت کہنا کسی بھی صحیح حدیث نبوی سے ثابت نہیں ، اس بارے میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں خاص کر اقامت کے بارے میں جتنی احادیث ہیں وہ شدید ضعیف ہیں اور ضعیف احادیث سے حجت لینا صحیح نہیں ہے
کیاضعیف احادیث پر عمل کرنا جائز ہے ؟
اس بارے میں علماء کرام کے کچھ اقوال آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوں ، ملاحظہ فرمائیں:۔
1-علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شریعت میں احادیث ضعیفہ پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے یعنی وہ حدیث جو نہ صحیح ہو اور نہ حسن ان پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔[القاعدة الجليلة في التوسل والوسيلة ص نمبر:82].
انکا دوسرا قول: ائمہ سلف میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ کہ حدیث ضعیف سے کسی چیز کو مستحب یاواجب کا حکم لگایا جائے ، اور جس نے ایسا کہا یو یقینا اس نے اجماع کی مخالفت کی۔[مجموع فتاوی250/1]۔
2:امام یحییٰ بن معین، امام مالک، امام بخاری، مسلم یحییٰ بن سعید القطان، شعبہ، امام ابو حاتم الرازی ، ابن العربی ، ابن شامہ مقدسی، ابن حزم ظاہری ،امام شوکانی شیخ ناصر الدین البانی رحمھم اللہ وغیرہ بھی حدیث ضعیف کے بارے میں اسی کے قائل ومائل ہیں کہ چاھے احکام ہوں یا فضائل ہر صورت میں احادیث ضعیفہ قابل حجت نہیں ہیں بلکہ جمہور اھل علم نے اس پر اجماع صحابہ بھی نقل کیا ہے۔
جیسے کہ کوثری نے اپنی کتاب مقالات میں ذکر کیا ہے۔[45 ، تهذيب التهذيب250/11].
3: شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث ضعیف پر عمل کرنا مطلقا جائز نہیں ہے نہ فضائل میں اور نہ مستحبات میں اورنہ انکے علاوہ کسی اورمعاملے میں۔[صحیح الجامع الصغیروزیادته49/1].
حديث ضعيف پر مطلقا عمل نہ ہوگا نہ ہی عقائد میں اور نہ فضائل اعمال میں یہ رائے محدثین میں سے امام ابوبکر نیساپوری ، امام زرعہ رازی، ،ابن ابی حاتم رازی، امام ابن حبان، امام ابوسلیمان خطابی ، امام ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ , امام جلال الدین الدوانی رحمھم اللہ کی یے اسی رائے کو علامہ جمال الدین قاسمی ، حسن صدیق خان احمد شاکر ، اور امام مقبل ھادی الوادعی رحہھم اللہ نے اختیار کیا ہے۔ یعنی ان تمام محدثین کے نزدیک حدیث ضعیف پر مطلقا عمل نہ کیا جائے گا۔[مقدمہ مسلم28/1 ، شرح علل الترمذی112/1 ، تدریب الراوی252/1 ، القاعدة الجليلة لابن تيمية ص نمبر:82 ، الآثارالمرفوعة في الأخبار الموضوعة ص نمبر:21].
اہل علم ومحدثین کے ان اقوال سے واضح ہوا کہ ضعیف احادیث پرعمل کرنا قطعا جائز نہیں ہے۔
انکی بہت سی دلائل ہیں:
ایک ذکر کئے دیتا ہوں:
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے مجھ سے کوئی ایسی حدیث بیان کی اسے معلوم ہے کہ وہ بات جھوٹی ہے تو وہ شخص جھوٹے کذاب میں سے ایک ہے۔[صحیح✅ مسلم مقدمہ مسلم 7/1 ، سنن ترمذی 357/4 ، کتاب العلم عن رسول اللہ ، مقدمہ ابن ماجہ68/1].
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے میری طرف سے کوئی جھوٹی بات گھڑ لی اسے چاھئے کہ وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔[سنن دارمی 304/1 , حدیث نمبر 239].
ان جیسی دلائل صحیحہ صریحہ سے جمہور اھل علم نے حجت پکڑی ہے کہ احادیث ضعیفہ قابل حجت اور قابل عمل نہیں ہے۔
بعض اہل علم فضائل اعمال میں ضعیف احادیث پرعمل کے قائل ہیں لیکن باقی محدثين نے اس رائے کو رد کیا ہے۔
اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر علماء ومحدثین نے نومولود کی آذان کو غیر مستحب قرار دیا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اسی بات کے قائل ہیں کہ ضعیف حدیث پر عمل نہ کیا جائے اور نومولود کی آذان کے بارے میں جو حدیث ابورافع منقول ہے یہ حدیث اصل میں ضعیف ہے۔
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ اس بارے جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ احادیث شدید ضعیف ہیں۔[لقاء الباب المفتوح60/24]۔
شیخ سلیمان علوان فرماتے ہیں:کہ نومولود کی آذان کے بارے میں حدیث ثابت نہیں ہے لہذا نومولود کو آذان دینا[پڑھنا]صحیح نہیں ہے ثابت ہوا کہ نوزائد بچے کے کان میں آذان ، اقامت کہنا مستحب نہیں ہے ، اور احکام شرعیہ واجبات ، مستحبات ، محرمات ، مکروھات جیسے امور پر منحصر ہیں۔
جن علماء نے نو مولود کی ولادت کے وقت آذان دینے کو مشروع ومستحب قرار دیا ہے ان کے نزدیک وہ احادیث ہیں جو کہ اس بارے میں وارد ہیں لیکن وہ احادیث تمام ضعیف ہیں اسلئے ضعیف احادیث کی بناء پر نومولود کی آذان کو سنت یامستحب کہنا صحیح نہیں ہے ۔
بعض علماء جیسے شیخ ابن عثیمین ابن باز وغیرہ۔رحمہم اللہ۔ نے احادیث کے ضعیف ہونے کے باوجود بچے کے کان میں آذان دینے کو جواز قرار دیا اور بعض نے کہا ہے کہ اس پر اکثر متقدمین ومتاخرین کا عمل ہے۔
اس بات کو مد نظر رکھ کر اگر بچے کے کان میں آذان دی جائے تو جواز تک کھ سکتے ہیں لیکن اسے مستحب، سنت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ نومولود کے کان میں آذان دینا مستحب ہے انکی دلیل یہ حدیث ہے:
ابو رافع رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو آپ ﷺ نے ان کے کان میں اذان دی ۔[حوالہ جات:ترمذی ، كتاب الاضاحى عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : الاذان في اذن المولود ، حدیث : 1596
مسند احمد ، المجلد السادس ، حديث ابي رافع رضي الله عنه ، حدیث : 22749 ،
ابو داؤد ، كتاب الادب ، باب : في الصبي يولد فيؤذن في اذنه ، حدیث : 5107]۔
اس حدیث مذکور کو اکثر محدثین اورماہرین حدیث نے ضعیف اور بعض نے ضعیف جدا کہا ہے ، مگر بعض اہل علم نے اسے حسن ، قوی کہا ہے۔
تخریج :
1- امام ترمذی نے “حسن صحیح” کہا۔[ترمذی حدیث نمبر:1514]۔
شیخ شعیب الارنؤوط نے حاشیہ(شرح السنة) میں قوی کہا اور تحقیق للمسند میں ضعیف کہا ہے۔
امام عبدالرزاق نے مصنف عبدالرزاق میں لائے ہیں ، حدیث نمبر:7986، امام طبرانی نے الکبیر میں لائے ہیں حدیث نمبر:931، والھاکم179/3 ، سنن بیھقی305/9 ، شعب الایمان نمبر:8618]۔
امام حاکم نے اس سے صحیح الاسناد کہا ہے۔
درج ذیل علماء نے اس حدیث کو حسن کہا ہے:
1:شیخ احمد الزین نے [حاشیہ مسند احمد] میں
2- شیخ عبدالمنان نور پوری نے[احکام و مسائل] میں
3- شیخ امین اللہ پشاوری نے[فتاوی الدین الخالص]میں
4- شیخ البانی نے ضعیف الترمذی میں اس حدیث کو شامل نہیں کیا ہے۔
5- اس حدیث کے ایک راوی عاصم بن عبید اللہ کو جمھور محدثین [المنذری ، ابن معین ، ابن حبان ، عجلی ، ابن عدی ، ابن خزیمہ وغیرہ) نے ضعیف کہا ہے۔
اسکے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین وماہرین وشارحین نے آذان المولود فی اذنہ کو ضعیف قرار دیا ہے۔اور آذان دینا چونکہ عبادات میں شامل ہے اور عبادات توقیفی ہوتے ہیں ، لہذا ہر عبادت کے لئے دلیل صحیح کاہونا ضروری ہے ورنہ عبادت قبول نہ ہوگی۔
ثابت یہ ہوا کہ بچہ کے پیدائش کے وقت آذان دینا سنت نہیں ہے لیکن اگر من باب جواز آذان پڑھ لیں تو شاید حرج نہ ہوگا لیکن سنت سمجھ کر ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔۔
هذا ما بدا لي في هذه المسئلة فإن أصبت فهو من الله وإن أخطأت فمن نفسي.
والله تعالى اعلى واعلم.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن وسنت کے مطابق ہی عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرمائے ، اور ہماری تمام سیئات کو در گذر فرمائے اور ہم سب کی آخرت بہتر فرمائے۔