از:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
جب بھی کسی کانفرنس کے انعقاد کی خبر آتی ہے تو مثبت اور منفی تبصرے لازمی طور پر ہوتے ہیں؛منفی تبصروں میں ایک تبصرہ خاص طور پر یہ کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی کانفرنسوں کا کیا فائدہ ہے؟قوم و ملت کے رقومات آخر پانی کی طرح بے دریغ کیوں بہائی جاتی ہیں؟ان پیسوں سے تو فلاں کام ہو سکتا تھا؛فلاں عمل انجام پا سکتا تھا وغیرہ وغیرہ
اس مختصر تحریر میں مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ عظیم الشان آل انڈیا اہل حدیث ہند کانفرنس کے تناظر میں کانفرنسوں کے چند فوائد کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ؛اس قوی اندیشے کے ساتھ کہ بہت سارے احباب ناجائز قصیدہ خوانی کے حسین طعنے بھی دیں گے؛کچھ دوست خوبصورت پھبتیاں بھی کسیں گے ؛بعض دیگر رفقاء دوسری قسم کی باتیں بھی کریں گے لیکن ؎
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
سر دست میں 9 اور 10 نومبر (سنیچر و اتوار)کو منعقد ہونے والی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے تعلق بغیر کسی لومۃ لائم کی پرواہ کیے چند باتیں عرض کر رہا ہوں؛ فأقول و باللہ التوفیق
(1)توحید و سنت کا اظہار اور شرک و بدعات سے انکار :احترام انسانیت اور مذاہب ِ عالم کے عنوان سے منعقد ہونے والی آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے ذیلی عناوین کا بنظرِ غائر مطالعہ کیجئے اور خطباء عظام اور مقالہ نگاران کرام کے مقالہ جات کے عناوین پر غور فرمائیے تو پتہ چلے گا کہ اس کانفرنس سے توحید و سنت کی اہمیت و ضرورت کا زبردست اظہار ہوگا اور بدعات و خرافات اور شرک و توہمات کی مذمت و خطرناکی پر روشنی ڈالی جائے گی ۔ان شاء اللہ
(2)احترام انسانیت اور امن و امان کی اہمیت و ضرورت :آج کے دور میں جس طرح فرقہ واریت؛باہمی منافرت؛آپسی رسہ کشی؛انتشار و خلفشار؛چوری ڈکیتی؛قتل و خوں ریزی؛جنگ و جدال؛ماب لنچنگ؛انتہا پسندی اور شدت پسندی عام ہے اور ان چیزوں کو اسلام سے جس طرح جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے, بلکہ انہیں خاکم بدہن اسلامی تعلیمات کا حصہ باور کرانے کی ناپاک اور منحوس کوششیں کی جاتی ہیں ؛ایسے وقت میں ایسے شاندار موضوع پر مذاکرہ و کانفرنس اور اجلاس کے انعقاد کی اہمیت و ضرورت دہ چند ہو جاتی ہے؛جس سے پوری دنیا میں اسلام کی محبت و مودت؛امن و امان ؛شانتی و اطمینان سے مملو و مشحون تعلیمات کا حسین و خوبصورت پیغام جائے گا ۔
(3)جماعت اہل حدیث کا فرقہ واریت و انتہا پسندی اور دہشت گردی سے مکمل برائت کا اظہار :پچھلے چند سالوں سے جس طرح ایک خالص سلفی اور کتاب و سنت کی حامل جماعت کو دہشت گردی سے جوڑا جا رہا ہے؛جس طرح بعض موقعوں پر علی رؤس الأشہاد جماعت اہل حدیث کو دہشت گرد قرار دیا گیا ؛اس طرح کی کانفرنسوں کا ایک عظیم فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر جائے گی کہ جماعت ِ حقہ(سلفیت و اہل حدیثیت) اس طرح کے بیجا؛بے بنیاد اور ناروا الزامات ا تہامات سے مکمل طور پر بری ہے اور فرقہ واریت و منافرت اور تشدد و دہشت پسندی سے اس جماعت ِ حقہ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ کتاب و سنت کی تعلیمات کا دوسرا نام سلفیت و اہل حدیثیت ہے
(4)قوت و کثرت کا اظہار :دنیا میں جتنی جماعتیں ہیں؛اپنی تعلیمات و توجیہات کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتی ہیں؛اجتماعات منعقد کرتی ہیں اورکانفرنسیں کرواتی ہیں؛تاکہ ان کی طاقت و قوت اور کثرت کا اظہار ہو؛اس کانفرنس کے انعقاد کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ہماری قوت و کثرت کا اظہار بھی ہوتا ہے جو انتہائی ضروری ہے ۔
(5) لقاء و روابط :کتنے احباب ایسے ہوتے ہیں جن سے ملاقات کے لیے بندہ ترستا رہتا ہے؛اس طرح کی کانفرنسوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ برسوں سے بچھڑے احباب و یاران سے ملاقات و بات نصیب ہوجاتی ہے
(6)شخصیات کی زیارات:کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کچھ شخصیات کو ایک لمحے کے لیے ہی سہی دیکھنے کے لیے ترستے ہیں؛اس طرح کی کانفرنسوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ متعدد شخصیات کو اپنی پیشانی کی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں ؛اب ایک مثال لے لیجئے نا؛کتنے لوگ مسجدِ نبوی کے محترم امام کی امامت و خطابت آن لائن سنتے اور دیکھتے ہیں ؛اب کل اور پرسوں کی کانفرنس میں لوگ امامِ محترم المقام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ اور ان کی امامت میں نماز پڑھ سکیں گے ان شاء اللہ ؛یہ کانفرنس کا فائدہ ہی تو ہے ۔
(7)مختصر وقت میں متعدد عناوین پر اظہار و سماعت :اس طرح کی کانفرنسوں میں متعدد شخصیات کی طرف سے متعدد عناوین پر خطابات و مقالات سنے اور سنائے جاتے ہیں اور دریا در کوزہ کے مصداق مختصر وقت میں ڈھیر ساری معلومات لے کر واپس ہوتے ہیں
اللہ تعالی اس طرح کی کانفرنسوں کو ثمر بار اور نیجہ خیز بنائے اور امتِ مسلمہ مرحومہ کے لیے مفید اور نفع بخش بنائے آمین یا رب العالمین