الجواب بعون الوہاب
✍ فاروق عبد اللہ نراین پوری
نماز ایک ایسی عبادت ہے جو کسی بھی حال میں معاف نہیں ہے۔ جب تک انسان ہوش وحواس میں ہے، پاگل نہیں ہو گیا ہے (اللہ تعالی ہمیں اس سے محفوظ رکھے) نماز اس سے معاف نہیں۔ اگر کھڑے کھڑے نہیں پڑھ سکتا، بیٹھے بیٹھے پڑھ لے، بیٹھے بیٹھے بھی نہیں پڑھ سکتا لیٹے لیٹے پڑھے۔ حرکت نہیں کر سکتا اشارے سے پڑھ لے۔ لیکن نماز نہیں چھوڑ سکتا۔
اسی طرح اسے وقت کے اندر ادا کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا۔
گرچہ میدان جہاد میں ہو، نماز معاف نہیں ہے۔
اگر کسی حالت میں نماز معاف ہو سکتی تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت سے پہلے جو حالت تھی اس حالت میں ان سے نماز معاف ہو جاتی، لیکن انھوں نے اس حالت میں بھی نماز ادا کی، اور وقت کے اندر ادا کی۔
جب تک انسان ہوش وحواس میں ہے نماز کا وقت داخل ہو جائے تو عذر کے حساب سے نماز کی تمام شرطیں، ارکان وغیرہ اس سے معاف ہو سکتی ہیں، لیکن نماز معاف نہیں ہو سکتی۔
مثلا: اگر دشمن نے اسے کھمبے سے باندھ دیا ہو، اور اس کا چہرہ قبلہ کی طرف نہ ہو پھر بھی اس سے نماز معاف نہیں ہے، رکوع، سجدہ، تشہد نہیں کر سکتا کوئی بات نہیں کھڑے کھڑے (جس طرح ممکن ہو) اشارے سے نماز ادا کرے۔
قبلہ رخ نہیں ہو سکتا کوئی بات نہیں، وضو یا تیمم نہیں کر سکتا کوئی بات نہیں، نیت ہی اس کے لئے کافی ہے۔
جنبی یا محتلم ہے اور غسل کے لئے پانی نہیں ہے کوئی بات نہیں، تیمم کر کر کے نماز پڑھ لے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہیں ہے تو نیت ہی کافی ہے۔
المہم جس طرح بھی ممکن ہو نماز ادا کرے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ”صحیح“ میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: “باب إذا لم يجد ماء ولا ترابا“۔
اس باب کے تحت شارحین حدیث نے جو بحث پیش کی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “وهذا لا يسقط عنه الصلاة ألا تراه يقول: لا يقبل الله صلاة حائض إلاّ بخمار وهي إذا لم تجد ثوبا صلت عريانة فكذلك هذا إذا لم يجد طهورا صلى على حسب الإمكان.
وقد يؤمر الطفل بالطهارة والصلاة ويحج به ولا يصح في الحقيقة شيء منها وتؤمر المستحاضة بالصلاة وطهرها غير صحيح.” ۔ (معالم السنن: 1/ 98)
اور امام ابن بطال رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
قال المؤلف: الذى لا يجد ماءً ولا ترابًا هو المكتوف والمحبوس والمهدوم عليه والمعطوب ومن أشبههم تحضره الصلاة…“۔ (شرح صحيح البخارى لابن بطال: 1/ 470)
اور امام ابو ثور رحمہ اللہ فرماتے ہیں: القياس فيمن لم يقدر على الطهارة أن يصلى ولا يعيد، كمن لم يقدر على الثوب وصلى عريانًا الصلاة لازمة له، يصلى على ما يقدر، ويؤدى ما عليه بقدر طاقته. (شرح صحيح البخارى لابن بطال: 1/ 472)
ا ور ابن القصار رحمہ اللہ كا قول ہے: كل من أدّى فرضه على ما كلفه لم يلزمه إعادة، كالمستحاضة، ومن به سلس البول، والعاجز عن أركان الصلاة يصلى على حسب حاله، وكالمسايف، والمسافر يحبس الماء خوفًا على نفسه من العطش، يتيمم ويصلى، كل هؤلاء إذا صلوا على حسب تمكنهم لم تجب عليهم إعادة. (شرح صحيح البخارى لابن بطال: 1/ 472)
یہ ہے نماز کی اہمیت اور وقت کے اندر اسے پڑھنے کی تاکید۔
سب سے زیادہ افسوس ان طلبہ علم اور علما پر ہوتا ہے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر نماز کو مؤخر کر دیتے ہیں اور وقت سے نکال کر پڑھتے ہیں۔ مثلا: سفر کر رہے ہوں تو نماز نہیں پڑھتے، کہتے ہیں منزل پر پہنچ کر اکٹھی تمام نمازیں پڑھ لیں گے۔ یہ بہت ہی خطرناک سوچ ہے۔ بلکہ ایک قول کے مطابق یہ جائز ہی نہیں ہے کہ وقت نکلنے کے بعد اسے پڑھا جائے سوائے دو اعذار کے: سو جائے یا بھول جائے۔ اگر سو گیا ہو اور وقت نکلنے کے بعد آنکھ کھلے، یا بھول گیا اور وقت نکلنے کے بعد یاد آئے تو فورا اسی وقت نماز ادا کرے، وہی اس کا وقت ہے۔
ان دو اعذار کے علاوہ کسی بھی عذر سے نماز کو وقت کے بعد پڑھنا جائز نہیں۔
سلف کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے، اور ان کے دلائل بھی کافی قوی ہیں۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ”المحلی“ میں اس مسئلہ پر انتہائی قیمتی علمی بحث پیش کی ہے، طلبہ علم کو اسے پڑھنا چاہئے۔
گرچہ اس مسئلہ میں قدیم زمانے سے اختلاف موجود ہے۔ اور مشقت کی حالت میں اگر کسی سے نماز چھوٹ جائے تو بعد میں اس کی قضا کو بعض علما نے جائز کہا ہے۔
بہت سارے حضرات (بلکہ بعض طلبہ اور علما بھی) رات کو جنبی ہونے یا احتلام ہونے کے بعد شرم وحیا کی وجہ سے فجر سے پہلے غسل نہیں کرتے، اور فجر کی نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ اور پھر ظہر سے پہلے غسل کرکے ظہر کے وقت فجر کی نماز پڑھتے ہیں۔ یہ انتہائی درجے کی ظلم وزیادتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اپنے اس عمل سے توبہ کرنا چاہئے۔
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ